آیات
54
نزول وحی کی جگہ
مکہ
اس سورہ کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ایک حٰم، دوسرے السجدہ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے۔
معتبر روایات کی رو سے اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمرؓ کے ایمان لانے سے پہلے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جماٴئے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موقع پر عُتبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر ) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں ، شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کر لیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آ جائیں ۔ سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور عتبہ اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا بیٹھا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوٴئے تو اس نے کہا’’ بھتیجے، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آٴئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔ اب ذرا میری بات سنو۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں ۔ ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کر لو‘‘۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابولولید، آپ کہیں ، میں سنوں گا۔ اس نے کہا، ‘‘ بھتیجے، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ۔ اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بناٴئے لیتے ہیں ۔ اور اگر تم پر کوئی جِن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا ء بلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں ۔‘‘ عُتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور حضورؐ خاموش سنتے رہے۔ پھر آپ نے فرمایا، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟ اس نے کہا، ہاں ۔، آپؐ نے فرمایا اچھا، اب میری سنو۔ اس کے بعد آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت 38) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا، ’’ اے ابوالید، میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘ عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا، خدا کی قسم، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا۔پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سُن آٴئے؟ اس نے کہا : ’’ بخدا، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ خدا کی قسم، نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے نہ کہانت۔ اے سردارانِ قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔ فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہو گی۔‘‘ سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے، ’’ ولید کے ابّا، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا۔‘‘ عتبہ نے کہا، میری جو راٴئے تھی وہ میں نے تمہیں بتا دی، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو (ابن ہشام، جلد 1، ص 313۔ 314)
اس قصے کو متعدد دوسرے محدثین نے حضرت جاب بن عبداللہ سے بھی مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضورؐ تلاوت کرتے ہوٴئے آیت : فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْ تُکُمْ صَا عِقُۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ (اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں ) پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ’’خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو‘‘۔ بعد میں اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’ آپ لوگ جانتے ہیں ، محمدؐ کی زبان سے جو بات نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے، اس لیے میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نازل نہ ہو جاٴئے‘‘۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر، ج 4، ص 90۔91۔البدایہ والنہایہ،ج3، ص 62)۔عتبہ کی اس گفتگو کے جواب میں جو تقریر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، اس میں ان بیہودہ باتوں کی طرف سرے سے کوئی التفات نہ کیا گیا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہی تھیں ۔ اس لیے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ دراصل حضورؐ کی نیت اور آپ کی عقل پر حملہ تھا۔ اس کی ساری باتوں کے پیچھے یہ مفروضہ کام کر رہا تھا کہ حضورؐ کے نبی، اور قرآن کے وحی ہونے کا تو بہر حال کوئی امکان نہیں ہے، اب لامحالہ آپؐ کی اس دعوت کا محرک یا تو مال و دولت اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ ہے، یا پھر، معاذاللہ، آپؐ کی عقل پر فتور آگیا ہے۔ پہلی صورت میں وہ آپ سے سودے بازی کرنا چاہتا تھا، اور دوسری صورت میں یہ کہہ کر آپ کی توہین کر رہا تھا کہ ہم اپنے خرچ پر آپ کی دیوانگی کا علاج کراٴئے دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں پر جب مخالفین اتر آئیں تو ایک شریف آدمی کا کام ان کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ان کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی جو بات کہنی ہو کہے۔
عتبہ کی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوٴئے اس سورہ میں اس مخالفت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے اس وقت انتہائی ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کے ساتھ کی جا رہی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے، آپ خواہ کچھ کریں ، ہم آپ کی کوئی بات سن کر نہ دی گے۔ ہم نے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں ۔ اپنے کان بند کر لیے ہیں ۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جو ہمیں اور آپ کو کبھی نہ ملنے دے گی۔انہوں نے آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا تھا کہ آپ اپنی اس دعوت کا کام جاری رکھیے، ہم آپ کی مخالفت میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔
انہوں نے آپ کو زک دینے کے لیے کام کا یہ نقشہ بنایا تھا کہ جب بھی آپ یا آپ کے پیروؤں میں سے کوئی عام لوگوں کو قرآن سنانے کی کوشش کرے، فوراً ہنگامہ برپا کر دیا جاٴئے اور اتنا شور مچایا جاٴئے کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے۔وہ پوری سرگرمی کے ساتھ اس کام میں لگے ہوٴئے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو اُلٹے معنی پہنا کر عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائیں ۔ بات کچھ کہی جاتی تھی اور وہ اسے بناتے کچھ تھے۔ سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالتے تھے۔ سیاق و سباق سے الگ کرک ے کوئی لفظ کہیں سے اور کوئی فقرہ کہیں سے لے اُڑتے اور اس کے ساتھ ا پنی طرف سے چار باتیں ملا کر نٴئے نٴئے مضامین پیدا کرتے تھے تاکہ قرآن اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے متعلق لوگوں کی راٴئے خراب کی جاٴئے۔
عجیب عجیب قسم کے اعتراضات جڑتے تھے جن کا ایک نمونہ اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے۔ کہتے تھے کہ ایک عرب اگر عربی زبان میں کوئی کلام سناتا ہے تو اس میں معجزے کی کیا بات ہوئی؟ عربی تو اس کی مادری زبان ہے۔ اپنی مادری زبان میں جس کا جی چاہے ایک کلام تصنیف کر لے اور دعویٰ کر دے کہ وہ اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔معجزہ تو جب ہوتا کہ یہ شخص کسی دوسری زبان میں ، جسے یہ نہیں جانتا، یکایک اٹھ کر فصیح و بلیغ تقریر کر ڈالتا۔ تب یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اوپر کہیں سے اس پر نازل ہو رہا ہے۔اس اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے : (1)۔ یہ خدا ہی کا نازل کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے۔ جو حقیقتیں اس میں صاف صاف کھول کر بیان کی گئی ہیں ، جاہل لوگ ان کے اندر علم کی کوئی روشنی نہیں پاتے، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے یہ کلام نازل کیا۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے۔ خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جواس سے فائدہ اٹھائیں ، اور ڈرنا چاہیے ان لوگو کو جو اس سے منہ موڑ لیں ۔ (2)۔ تم نے اگر اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں اور اپنے کان بہرے کر لیے ہیں تو نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا اسے سناٴئے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا اس کے دل میں زبردستی اپنی بات اتارے۔ وہ تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے۔ سننے والوں ہی کو سنا سکتا ہے اور سمجھنے والوں ہی کو سمجھا سکتا ہے۔ (3)۔ تم چاہے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لو اور اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو، مگر حقیقت یہی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی ہے اور تم کسی دوسرے کے بندے نہیں ہو۔ تمہاری ضد سے یہ حقیقت بہر حال نہیں بدل سکتی۔ مان لو گے اور اس کے مطابق اپنا عمل درست کر لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔ نہ مانو گے تو خود ہی تباہی سے دوچار ہو گے۔ (4)۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ شرک اور کفر تم کس کے ساتھ کر رہے ہو؟ اس خدا کے ساتھ جس نے یہ اَتھاہ کائنات بنائی ہے، جو زمین و آسمان کا خالق ہے، جس کی پیدا کی ہوئی برکتوں سے اس زمین میں تم فائدہ اٹھا رہے ہو، اور جس کے مہیا کیے ہوٴئے رزق پر تم پل رہے ہو۔ اس کا شریک تم اس کی حقیر مخلوقات کو بناتے ہو، اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضد میں آ کر منہ موڑتے ہو۔ (5)۔اچھا، نہیں مانتے تو خبردار ہو جاؤ کہ تم پر اسی طرح کا عذاب اچانک ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہے جیسا عاد اور ثمود پر آیا تھا۔ اور یہ عذاب بھی تمہارے جرم کی آخری سزا نہ ہو گا، بلکہ آگے میدان حشر کی باز پرس اور جہنم کی آگ ہے۔ (6)۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جِن و انس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہیں ، اسکی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کریں اور اسے کبھی خود صحیح بات سوچنے دیں ، نہ کسی دوسرے سے سننے دیں ۔ اس طرح کے نادان لوگ آج تو یہاں ایک دوسرے بڑھاوے چڑھاوے دے رہے ہیں ، اور ہر ایک دوسرے کی شہ پا کر نہلے پر دہلا مار رہا ہے، مگر قیامت کے راز جب شامت آٴئے گی تو ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ جن لوگوں نے مجھے بہکایا تھا وہ میرے ہاتھ لگ جائیں تو انہیں پاؤں تلے روند ڈالوں ۔ (7)۔ یہ قرآن ایک اٹل کتاب ہے۔ اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے۔ باطل خواہ سامنے سے آٴئے یا در پردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو، اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔ (8)۔ آج تمہاری اپنی زبان میں یہ قرآن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو تو تم یہ کسی عجمی زبان میں آنا چاہیے تھا۔ لیکن اگر ہم تمہاری ہدایت کے لیے عجمی مذاق ہے، عرب قوم کی ہدایت کے لیے عجمی زبان میں کلام فرمایا جا رہا ہے جسے یہاں کوئی نہیں سمجھتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دراصل ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے۔ نہ ماننے کے لیے نت نئے بہانے تراش رہے ہو۔ (9)۔کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر فی الواقع حقیقت یہی نکلی کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور تک جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔ (10)۔ آج تم نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام آفاق پر چھا گئی ہے،اور تم خود اس سے مغلوب ہو چکے ہو۔ اس وقت تمہیں پتہ چل جاٴئے گا کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا تھا، وہ حق تھا۔ مخالفین کو یہ جوابات دینے کے ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ فرمائی گئی ہے جو اس شدید مزاحمت کے ماحول میں اہل ایمان کو اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو در پیش تھے۔ ایمان لانے والوں کے لیے اس وقت تبلیغ کرنا تو در کنار، ایمان کے راستے پر قائم رہنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا، اور ہر اس شخص کی جان عذاب میں آ جاتی تھی جس کے متعلق یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ دشمنوں کی خوفناک جتھہ بندی اور ہر طرف چھائی ہوئی طاقت کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور بے یار و مدد گا محسوس کر رہے تھے۔ اس حالت میں اول تو یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی گئی کہ تم حقیقت میں بے یار مدد گار نہیں ہو، بلکہ جو شخص بھی ایک دفعہ خدا کو اپنا رب مان کر اس عقیدے اور مسلک پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے، خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے لے کر آخرت تک اس کا ساتھ دینے ہیں ۔ پھر یہ فرما کر انکا حوصلہ بڑھایا گیا کہ بہترین ہے وہ انسان جو خود نیک عمل کرے، دوسروں کو خدا کی طرف بلاٴئے، اور ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس وقت جو سوال سخت پریشان کن بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب اس دعوت کی راہ میں ایسے سنگ گراں حائل ہیں تو ان چٹانوں سے تبلیغ کا راستہ آخر کیسے نکالا جاٴئے َ اس سوال کا حل آپ کو یہ بتایا گیا کہ یہ نمائشی چٹانیں بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہیں ،مگر اخلاق حسنہ کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جو انہیں توڑ کر اور پگھلا کر رکھ دے گا۔صبر کے ساتھ اس سے کام لو، اور جب کبھی شیطان اشتعال دلا کر کسی دوسرے ہتھیار سے کام لینے پر اکساٴئے تو خدا سے پناہ مانگو۔0%