نام:
اس سورہ کا نام آیات نمبر 71 و 73 (
وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْ آ اِلیٰ جَھَنَّمَ زُمَراً اور وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ ارَبَّھُمْ اِلَی ا لْجَنَّۃٍ زُمَراً
) سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زمر آیا ہے۔
زمانۂ نزول:
آیت نمبر 10 (
وَاَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃٌ ) سے اس امر کی طرف صاف اشارہ نکلتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ
سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں یہ تصریح آئی ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کے
حق میں ہوا تھا جبکہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کا عزم کیا (روح المعانی، جلد 23، صفحہ 226)
موضوع اور
مضمون:
یہ پوری سورت ایک بہترین اور انتہائی مؤثر خطبہ ہے جو ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے مکہ معظمہ کی ظلم و تشدد سے بھری ہوئی اور عناد و مخالفت سے لبریز فضا میں دیا گیا تھا۔ یہ ایک وعظ ہے جس کے مخاطب زیادہ تر کفارِ قریش ہیں ، اگر چہ کہیں کہیں اہل ایمان سے بھی خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں دعوت محمدی کا اصل مقصود بتایا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان خالص اللہ کی بندگی اختیار کرے اور کسی دوسرے کی طاعت و عبادت سے اپنی خدا پرستی کو آلودہ نہ کرے۔ اس اصل الاصول کو بار بار مختلف انداز سے پیش کرتے ہوئے نہایت زور دار طریقے پر توحید کی حقانیت اور اسے ماننے کے عمدہ نتائج، اور شرک کی غلطی اور اس پر جمے رہنے کے بُرے نتائج کو واضح کیا گیا ہے ، اور لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنی غلط روش سے باز آ کر اپنے رب کی رحمت کی طرف پلٹ آئیں۔ اسی سلسلے میں اہل ایمان کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر اللہ کی بندگی لے لیے ایک جگہ تنگ ہو گئی ہے تو اس کی زمین وسیع ہے ، اپنا دین بچانے کے لیے کسی اور طرف نکل کھڑے ہو، اللہ تمہارے صبر کا اجر دے گا۔ دوسرے طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا ہے کہ ان کفار کو اس طرف سے بالکل مایوس کر دو کہ ان کا ظلم و ستم کبھی تم کو اس راہ سے پھیر سکے گا اور ان سے صاف صاف کہہ دو کہ تم میرا راستہ روکنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو کر ڈالو، میں اپنا یہ کام جاری رکھوں گا۔