آیات
20
نزول وحی کی جگہ
مکہ
پہلی آیات کے لفظ
المُزّمِّلکو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام ہے اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے۔
اس سورۃ کے دو رکوع دو الگ زمانوں میں نازل ہوئے ہیں۔
پہلا رکُوع بالاتفاق مکّی ہے۔ اس کے مضامین اوراحادیث کی روایات دونوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ مکّی زندگی کے کس دور میں نازل ہوا ہے، اِس کا جواب ہمیں روایات سے تو نہیں ملتا، لیکن اِس رکوع کے مضامین کی داخلی شہادت اِس کا زمانہ متعین کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے:اوّلاً، اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ راتوں کواٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تا کہ آپ کے اندر نبوّت کے بارِ عظیم کو اٹھانے اوراس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضورؐ کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جا رہی تھی۔
ثانیاً، اِس میں حکم دیا گیا ہے کہ نمازِ تہّجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ یہ ارشاد خود بخود اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اُس وقت قرآن مجید کا کم از کم اتنا حصّہ نازل ہو چکا تھا کہ اس کی طویل قرأت کی جا سکے۔ثالثاً ، اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفین کی زیادیتوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفّارِ مکّہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رکوع اُس زمانے میں نازل ہوا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع کر چکے تھے اور مکّہ میں آپ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی۔
دوسرے رکوع کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسّرین نے یہ خیا ل ظاہر کیا ہے کہ وہ بھی مکہ ہی میں نازل ہوا ہے، لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اسے مدنی قرار دیا ہے، اور اس رکوع کے مضامین سے اِسی خیا ل کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ مکہ میں اس کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، اور اس میں فرض زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ زکوٰۃ ایک مخصوص شرح اور نصاب کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔پہلی سات آیات میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جس کارِ عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمّہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپ اپنے آپ کو تیار کریں، اور اُس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہےکہ راتوں کو اُٹھ کر آپ آدھی آدھی رات، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔
آیت ۸ سے ۱۴ تک حضورؐ کو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اُس خدا کے ہور میں جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اُسی کے سُپرد کرکے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین جو باتین آپ کے خلاف بنا رہے ہیں ان ر صبر کریں، اُن کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی اُن سے نمٹ لے گا۔اس کے بعد آیات ۱۴ سے ۱۹ تک مکّہ کے اُن لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر رہے تھے، مُتَنَبِّہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اُسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دو چار ہوا۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟
یہ پہلے رکوع کے مضامین ہیں۔ دوسرا رکوع حضرت سعید بن جُبیَر کی روایت کے مطابق اُس کے دس سال بعد نازل ہوا اور اس میں نمازِ تہجّد کے متعلق اُس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا ۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجّد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی بآسانی پڑھی جا سکے پڑھ لیا کرو، لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنجوقتہ فرض نماز پُوری پا بندی کے ساتھ قائم رکھیں، فریضہ زکوٰۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کے ساتھ صرف کریں۔ آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم دنیا میں انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ اُن کی حیثیت اُس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پرپہلے سے بھیج دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاِؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے ، اور پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اُس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔
0%