نام:
پہلی ہی آیت کے فقرہ
وَانْشَقَّ الْقَمَر سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ القمر آیا ہے
۔
زمانۂ نزول:
اس میں شقّ القمر کے واقعہ کا ذکر آیا ہے جس سے اس کا زمانہ نزول متعین ہو جاتا ہے ۔ محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے
کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا تھا۔
موضوع اور
مضمون:
اس میں کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی تھی۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے تھے ، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے ، اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی فور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا۔ پھر آن کی آن میں وہ دونوں پھر مل گئے تھے ۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے ۔ وہ درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں ۔ بکھر سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں ۔ اور وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے ۔ یہی نہیں ، بلکہ یہ اس امر کا پتا بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہو گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی حیثیت سے لوگوں کو اس وقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا، دیکھو اور گواہ رہو۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار یا اور اپنے انکار پر جمے رہے ۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورہ میں انہیں ملامت کی گئی ہے ۔
کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا کی یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں ۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہو جائے گی اور قبروں سے نکل کو یہ داورِ محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے ۔
اس کے بعد ان کے سامنے قوم نوح، عاد،قوم لوط ،اور آل فرعون کا حال مختصر الفاظ میں بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تنبیہات کو جھٹلا کر یہ قومیں کس درد ناک عذاب سے دو چار ہوئیں ، اور ایک ایک قوم کا قصہ بیان کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ یہ قرآن نصیحت کا آسان ذریعہ ہے جس سے اگر کوئی قوم سبق لے کر راہ راست پر آ جائے تو ان عذابوں کی نوبت نہیں آسکتی جو ان قوموں پر نازل ہوئے۔ اب آخر یہ کیا حماقت ہے کہ اس آسان ذریعہ سے نصیحت قبول کرنے کے بجائے کوئی اسی پر اصرار کرے کہ عذاب دیکھے بغیر نہ مانے گا۔
اس طرح پچھلی قوموں کی تاریخ سے عبرتناک مثالیں دینے کے بعد کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ جس طرزِ عمل پر دوسری قومیں سزا پا چکی ہیں وہی طرز عمل اگر تم اختیار کرو تو آخر تم کیوں نہ سزا پاؤ گے ؟ کیا تمہارے کچھ سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ تمہارے ساتھ دوسروں سے مختلف معاملہ کیا جائے ؟ یا کوئی خاص معافی نامہ تمہارے پاس لکھا ہوا آگیا ہے کہ جس جرم پر دوسرے پکڑے گئے ہیں وہی تم کرو گے تو تمہیں نہ پکڑا جائے گا؟ اور اگر تم اپنی جمیعت پر پھولے ہوئے ہو تو عنقریب تمہاری یہ جمیعت شکست کھا کر بھاگتی نظر آئے گی، اور اس سے زیادہ سخت معاملہ تمہارے ساتھ قیامت کے روز ہو گا۔ آخر میں کفار کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت لانے کے لیے کیس بڑی تیاری کی حاجت نہیں ہے ۔ اس کا بس ایک حکم ہوتے ہی پلک جھپکاتے وہ برپا ہو جائے گی۔ مگر ہر چیز کی طرح نظام عالم اور نوع انسانی کی بھی ایک تقدیر ہے ۔ اس تقدیر کے لحاظ سے جو وقت اس کام کے لیے مقرر ہے اسی وقت پر وہ لوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب کوئی چیلنج کرے اس کو قائل کرنے کے لیے قیامت لا کھڑی کی جائے ۔ اس کو آتے نہ دیکھ کر تم سرکشی اختیار کرو گے تو اپنی شامت اعمال کا نتیجہ بھگتو گے ۔ تمہارا کچّا چٹھا خدا کے ہاں تیار ہو رہا ہے جس میں تمہاری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ثبت ہونے سے رہ نہیں گئی ہے ۔