آیات
78
نزول وحی کی جگہ
مدینہ
چوتھے رکوع کی دوسری آیت
وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِا لْحَجِّسے ماخوذ ہے۔
اس سورے میں مکی اور مدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مفسریں میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے کہ مدنی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اور انداز بیان کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں اور دوسرا حصہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ادوار کی خصوصیات اس میں جمع ہو گئی ہیں۔
ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکہ زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو۔ یہ حصہ آیت 24 ( وَھُدُوْ آ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓ اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ) پر ختم ہوتا ہے۔
اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا وَیَصُدُّ وْ نَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِسے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسو ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ آیت 25 سے 41 تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے ، اور آیت 39۔ 40 کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا ، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا ، اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار کر دی ، ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا ان آیات کے نزول کا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں کدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبںا اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس ، مجاہد ، عَرْوَہ بن زُبَیر ، زید بن اسلم، مقاتل بن حیان ، قَآتَدہ اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر 2 ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ود ان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے۔
اس سورہ میں تین گروہ مخاطب ہیں۔ مشرکین مکہ، مذبذب اور متردد مسلمان، اور مومنین صادقین۔
مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خا لات پر اصرار کیا، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ، اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنی ہی کچھ بگاڑی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و اِنذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔مذبذب مسلمان ، جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے ، ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت ، عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں ، پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو۔
اہل ایمان سے خاکب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے ، حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی۔
دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’ مسلم‘’‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ابراہیمؑ کے اصل جانشین تم لوگ ہو ، تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے۔اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔
0%