آیات
7
نزول وحی کی جگہ
مکہ
اس کا نام 'الفاتحہ’ اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے۔ ‘فاتحہ’ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ نام دیباچہ اور إٓغازِکلام کے ہم معنی ہے ۔
یہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے ۔ بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ یہی ہے ۔اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورہ علق، سورہ مزمل ،اور سورہ مدثر وغیرہ میں شامل ہیں۔
دراصل یہ سورہ ایک دعا ہے جو خدا نے ہر اس انسان کا سکھائی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خدا وند عالَم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرةً دعا اسی چیز کی کیا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے ،اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کر رہا ہے ۔پس قرآن کی ابتدا میں اِ س دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لیے پڑھے، طالبِ حق کی سی ذہنیت لے کر پڑھے، اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوندِعالم ہے ،اس لیے اسی سے راہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔ اس مضمون کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اورسورہ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمے کا سا نہیں بلکہ دعا اور جوابِ دعا کا سا ہے ۔سورہ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے ،اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے ۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میری رہنمائی کر ۔جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت ورہنمائی جس کی درخواست تونے مجھ سے کی ہے۔
0%