آیات
5
نزول وحی کی جگہ
مکہ
پہلی ہی آیت کے لفظ اَلقدر
کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
اس کے مکّی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابو حَیّان نے البحر المحیط میں دعویٰ کیا ہے کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ مدنی ہے ۔ علی بن احمد الواحدی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ پہلی سورۃ جو مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ بخلاف اس کے الماوَرْدِی کہتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ مکّی ہے، اور یہی بات امام سیُوطِی نے اِتْقان میں لکھی ہے۔ ابن مَرْدُویَہ نے ابن عباس ، ابن الزُّبَیر اور حضرت عائشہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ سورۃ مکّہ میں نازل ہوئی تھی۔ سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کو مکّہ ہی میں نازل ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے۔
اس کا موضوع لوگوں کو قرآن کی قدر و قیمت اور اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ قرآن مجید کی ترتیب میں اِسے سورۂ عَلَق کے بعد رکھنے سے خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس کتاب پاک کے نزول کا آغاز سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوا تھا اُسی کے متعلق اِس سورہ میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ کس تقدیر ساز رات میں نازل ہوئی ہے۔ کیسی جلیل القدر کتاب ہے اور اس کا نزول کیا معنی رکھتا ہے۔
سب سے پہلے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اِسے نازل کیا ہے ۔یعنی یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اِس کے نازل کرنے والے ہم ہیں۔
اس کے بعد فرمایا کہ اِس کانزول ہماری طرف سے شبِ قدر میں ہوا ہے۔ شبِ قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے کہ جس میں تقدیروں کے فیصلے کر دیے جاتےہیں، یا بالفاظِ دیگر یہ کوئی معمولی رات عام راتوں جیسی نہیں ہے، بلکہ یہ قسمتوں کےبنانے اور بگاڑنے کی رات ہے۔ اِس میں اِس کتاب کا نزول محض ایک کتاب کا نزول نہیں ہے بلکہ یہ وہ کام ہے جو نہ صرف قریش ، نہ صرف عرب، بلکہ دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ یہی بات سورۂ دُخان میں بھی فرمائی گئی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۂ دُخان کا دیباچہ اور حاشیہ ۳)۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر و منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے ، اورآگے اس کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ یہ ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اِس سے کفّارِ مکّہ کو گویا متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اپنی نادانی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کی ہوئی اِس کتاب کو اپنی لیے ایک مصیبت سمجھ رہے ہو اور کوس رہے ہو کہ یہ کیا بلا ہم پر نازل ہو ئی ہے، حالانکہ جس رات کو اِس کے نزول کا فیصلہ صادر کیا گیا وہ اِتنی خیر و برکت والی رات تھی کہ کبھی انسانی تاریخ کے ہزار مہینوں میں بھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا تھا جو اِس رات میں کر دیا گیا۔ یہ بات بھی سُورۂ دُخان آیت ۳ میں ایک دوسرے طریقے سے بیان کی گئی ہے اور اُس سورہ کے دیباچے میں ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔آخر میں بتایا گیا ہے کہ اِس رات کو فرشتے اور جبریل ؑ اپنے ربّ کے اِذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں (جسے سورۂ دخان ، آیت۴ میں امرِ حکیم کہا گیاہے) اور وہ شام سے صبح تک سراسر سلامتی کی رات ہوتی ہے ، یعنی اس میں کسی شر کا دخل نہیں ہوتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے بالآخر بھلائی کے لیے ہوتے ہیں، ان میں کوئی بُرائی مقصود نہیں ہوتی، حتیٰ کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ بھی ہوتا ہے تو خیر کے لیے ہوتا ہے نہ کہ شر کے لیے۔
0%