آیات
22
نزول وحی کی جگہ
مکہ
پہلی آیت کے لفظ
اَلْبُرُوْجکو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
اس کا مضمون خود یہ بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ برپا تھا اور کفار مکہ مسلمانوں کو سخت سے سخت عذاب دے کر ایمان سے پھیر دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس کاموضوع کفار کو اس ظلم و ستم کے بُرے انجام سے خبر دار کرنا ہے جو وہ ایمان لانے والوں پر توڑ رہے تھے، اور اہلِ ایمان کو یہ تسلی دینا ہے کہ اگر وہ ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے تو ان کو اس کا بہترین اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے بدلہ لےگا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اصحاب الاُخدود کا قصہ سنایا گیا ہے جنہوں نے ایمان لانے والوں کو آگے سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک پھینک کر جلا دیا تھا۔ اور اس قصے کے پیرا ے میں چند باتیں مومنوں اور کافروں کے ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح اصحاب الاُخدود خدا کی لعنت اور اس کی مار کے مستحق ہوئے اسی طرح سردارانِ مکہ بھی اس کے مستحق بن رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان لانے والوں نے اس وقت آگ کے گڑھوں میں گر کر جان دے دینا قبول کر لیا تھا اور ایمان سے پھرنا قبول نہیں کیا تھا، اسی طرح اب بھی اہلِ ایمان کو چاہیے کہ ہر سخت سے سخت عذاب بھگت لیں مگر ایمان کی راہ سے نہ ہٹیں ۔تیسرے یہ کہ جس خدا کے ماننے پر کافر بگڑتے اور اہلِ ایمان اصرار کرتے ہیں وہ سب پر غالب ہے، زمین و آسمان کی سلطنت کا مالق ہے، اپنی ذات میں آپ حمد کا مستحق ہے، اور وہ دونوں گروہوں کے حال کو دیکھ رہا ہے ، اس لیے یہ عمل یقینی ہے کہ کافروں کو نہ صرف ان کے کفر کی سزا جہنم کی صورت میں ملے ، بلکہ اس پر مزید ان کے ظلم کی سزا بھی ان کو آگ کے چَرکے دینے کی شکل میں بھگتنی پڑے ۔ اسی طرح یہ امر بھی یقینی ہے کہ ایمان لا کر نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں ، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ پھر کفار کو خبر دار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے، اگر تم اپنے جتّھے کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو تو تم سے بڑے جتھے فرعون اور ثمو د کے پاس تھے، ان کے لشکروں کا جو انجام ہوا ان سے سبق حاصل کرو۔ خدا کی قدرت تم پر اس طرح محیط ہے کہ اُس کے گھیرے سے تم نکل نہیں سکتے ، اور قرآن، جس کی تکذیب پر تم تُلے ہوئے ہو، اس کی ہر بات اٹل ہے ، وہ اس لوحِ محفوظ میں ثَبْت ہے، جس کا لکھا کسی کے بدلے نہیں بدل سکتا۔
0%