آیات
45
نزول وحی کی جگہ
مکہ
پہلی ہی آیت کا لفظ ’’فاطر‘‘ اس سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے جس کے معنی صرف یہ ہیں کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں فاطر کا لفظ آیا ہے۔ دوسرا نام ’’ المَلَائکہ‘‘ بھی ہے اور یہ لفظ بھی پہلی آیت میں وارد ہوا ہے۔
اندازِ کلام کی اندرونی شہادت سے مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کے نزول کا زمانہ غالباً مکہ معظمہ کا دور متوسط ہے، اور اس کا بھی وہ حصہ جس میں مخالفت اچھی خاصی شدّت اختیار کر چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بُری سے بری چالیں چلی جا رہی تھیں۔
کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کے مقابلہ میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ نادانو، یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے اس میں تمہارا اپنا بھلا ہے۔ اس پر تمہارا غصہ، اور تمہاری مکاریاں اور چال بازیاں، اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمہاری تدبیریں دراصل اس کے خلاف نہیں بلکہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں۔ اس کی بات نہ مانو گی تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے۔ وہ جو کچھ تم سے کہ رہا ہے اس پر غور تو کرو، آخر اس میں غلط کیا بات ہے۔ وہ شرک کی تردید کرتا ہے۔ تم خود آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا شرک کے لیے دنیا میں کوئی معقول بنیاد موجود ہے؟ وہ توحید کی دعوت دیتا ہے۔ تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو، کیا للہ فاطر السمٰوات و الارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو؟ وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمہیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہو گا۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمہارے شبہات اور اچنبھے کس قد ر بے اصل ہیں۔ کیا تمہاری آنکھیں رات دن اعادہ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں؟پھر تمہارا ہی اعادہ اس خدا کے لیے کیوں ناممکن ہو جس نے تم کو ایک ذرا سے نطفے سے پیدا کر دیا۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی نہیں دیتی کہ بھلے اور بُرے کو یکساں نہ ہونا چاہیے؟ پھر تم ہی بتاؤ کہ معقول بات کیا ہے؟ یہ کہ بھلے اور برے کا انجام یکساں ہو، یعنی مٹی میں ملنا اور فنا ہو جانا؟ یا یہ کہ بھلے کو بھلا اور برے کو برا بدلہ ملے؟ اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بے مہا رہی کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے۔ شامت تو تمہاری اپنی ہی آئے گی۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری تھی، اور وہ اس نے ادا کر دی۔
سلسلہ کلام میں بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں۔ اس کے بجائے آپ اپنی توجہات ان لوگوں پر صرف کریں جو بات سننے کے لیے تیار ہیں۔ ایمان قبول کرنے والوں کو بھی اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تا کہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔0%