آیات
52
نزول وحی کی جگہ
مکہ
آیت ۳۵ کے فقرے
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰ ھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا لْبَلَدَ اٰ مِنًا،سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورہ میں حضرت ابراہیمؑ کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے۔ یعنی وہ سورہ جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔
زمانہ ٴنزول :
عام اندازِ بیان مکّہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورۂ رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔ خصُوصًا آیت ۱۳ کے الفاظ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْ دُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا(انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو تمہیں ہماری مِلّت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے) کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اُس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہلِ مکہ پچھلی کا فر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہلِ ایمان کو خارج البلد کر دینے پر تُل گئے تھے ۔ اسی بناپر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو اُن کے سے رویّہ پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ
لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ (ہم ظالموں کو ہلاکر کر کے رہیں گے) اور اہلِ ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش رووں کو دی جاتی رہی ہے کہ
لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِھِمْ(ہم ان ظالموں کو ختم کر نے کے بعد تم ہی کو ا س سر زمین میں آباد کریں گے)۔
جولوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کر نے کے لیے ہر طرح کی بد تر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کی فہمائش اور تنبیہ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورہ میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جا چکا تھا اور اس کے باوجود کفارِ قریش کی ہٹ دھرمی ، عناد، مزاحمت ، شرارت اور ظلم و جود میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔
0%